حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ میں ایک درخشندہ اور تابندہ باب ہے۔آپؓ ایمان و ایقان، علم وعمل،شرافت،بزرگی،اخلاص وللہیت،عدل وانصاف،دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی اعلی مثال ہیں۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار ان رہبروں میں ہوتا ہے جو لوگوں کیلئے زندگی کے اصول وضع کرتے ہیں اور پھر لوگ اپنی زندگیوں میں ان کے اقوال و افعال سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔ آپؓ کی سیرت ایمان افروز ہونے کیساتھ ساتھ دینِ اسلام کی سچّی تعبیر اور فہم سلیم کا مظہر بھی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ مھدیین کی پیروی کریں اور انکے راستے پر چلیں۔
آپﷺ نے فرمایا تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کے طریقے کو اختیار کرنا(ابن ماجہ ) حضرت عمرفاروقؓ انبیاءورسل علیھم السلام اورسیدناابوبکر صدیقؓ کے بعد سب سے افضل و بہتر ہیں ۔حضور نبی کریمﷺنےارشادفرمایامیرے بعدابوبکروعمر( رضی اللہ عنھم)کی اقتداء(پیروی)کرنا (ترمذی شریف )۔حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ کے دین کے معاملے میں عمرؓ میری اُمت میں سے سب سے زیادہ سخت ہیں (ابن حبان،مستدرک حاکم )
حضرت عمر فاروقؓ اتنے با رُعب شخصیت کے مالک تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔اے عمرؓ !شیطان تم سے ڈرتا ہے۔(ترمذی شریف) ایک روایت میں حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓبن خطاب ہوتے۔(ترمذی شریف)
1-سیدنا فاروق اعظمؓ کا نام و نسب۔۔!
آپؓ اشرافِ قریش میں اپنی ذاتی و خاندانی وجاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہیں۔زمانۂ جاہلیت میں سفارت کاری کا شعبہ آپؓ کے خاندان سے متعلق تھا، آپؓ کا نسب نامہ یوں بیان کیا گیا ہے، عمرؓ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزٰی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر القرشی العدوی۔
آپ ﷺ کی آٹھویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں،مرہ اور عدی ۔ حضور نبی کریمﷺ مرہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ حضرت عمر فاروقؓ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔ ددھیال کیطرح حضرت عمر فاروقؓ ننہیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کی والدہ محترمہ ختمہ،ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجے کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبرد آزمائی کیلئے جاتے تو فوج کا اہتمام انہی کے متعلق ہوتا تھا۔ امام ابن عبدالبر الاندلسی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ عام الفیل کے تیرہ (13) سال بعد پیدا ہوئے۔ زمانہ شباب میں نسب دانی،سپہ گری،پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی،آپکو خصوصًا شہسواری میں کمال حاصل تھا، اسی زمانے میں پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا۔چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اُن میں ایک حضرت عمرؓ بھی تھے۔(استیعاب تذکرۂ عمرؓ بن خطاب)
2-حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کنیت و لقب ۔۔
حضرت عمر فاروقؓ کی کنیت ابو حفص اور لقب فاروق دونوں ہی آپﷺ کے عطا کردہ ہیں۔چنانچہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالی نے حق کو عمرؓ کی زبان اور اُن کے دل پر جاری کر دیا۔( صحیح ابن حبّان )آپؓ فاروق ہیں۔اللہ تعالی نے ان کے ذریعے حق وباطل میں فرق کیا۔ابو عمر ذکوان بیان کرتے ہیں میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے دریافت کیا عمر رضی اللہ عنھا کا نام فاروق کس نے رکھا تھا ؟ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ نے بیشک عمرؓ کا نام فاروق رکھنا ظہورِ اسلام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیونکہ آپؓ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمان صفا کے دامن میں واقع دار ارقم میں چھپ کر رہا کرتے تھے اور اپنے دینی شعائر اپنے گھروں میں ادا کیا کرتے تھے، لیکن جب وہ مشرف بہ اسلام ہوئے تو انہوں نے عرض کیا ؛ اللہ کے رسولﷺ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں خواہ ہم زندہ رہیں خواہ مریں۔۔؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،تم لوگ حق پر ہو خواہ تم زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو۔ حضرت عمر نے عرض کیا پھر چھپنا کیسا ۔۔۔۔ ؟ اس ذات کی قسم ! جس نے آپﷺ کو حق کیساتھ مبعوث فرمایا،آپ ضرور باہر نکلیں گے، حضرت عمر بیان کرتے ہیں پس ہم دو صفوں میں آپﷺ کیساتھ باہر آئے ایک صف میں سیدنا حمزہ تھے اور دوسری صف میں میں تھا حتی کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو گئے۔جب قریش نے مجھے اور حمزہ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی، پس رسول اللہﷺ نے اُسی دن میرا نام فاروق رکھ دیا اور حق وباطل کے مابین فرق کر دیا گیا۔ آپﷺ اپنے صحابہ کرام کا ان کی بہترین اور امتیازی صفات کی مناسبت سے نام رکھا کرتے تھے؛ پس آپﷺ نے ابوبکر کا صدیق وعتیق اور عمر کا فاروق اور خالد بن ولید کا سیف اللہ لقب رکھا۔
3-حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام۔
حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے چھبیس (26) سال کی عمر میں نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا۔حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب عمر فاروقؓ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت اُنتالیس (39) خواتین وحضرات رسول اللہﷺ پر ایمان لا چکے تھے،اُن کے مسلمان ہونے سے یہ تعداد چالیس ہو گئی پھر جبریل امینؑ اللہ تعالی کا فرمان لیکر حاضر ہوئے ترجمہ ! (اے نبیﷺ! ) آپﷺ کیلئے اللہ اور وہ مومن جنہوں نے آپﷺ کی اتباع کر لی ہے وہ کافی ہیں۔
(سورت الانفال) اور آپﷺ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! عمرؓ بن خطاب یا عمرو بن ہشام میں سے اپنے محبوب تر بندے کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچا۔ مگر یہ دولت تو قساّم ازل نے حضرت عمرؓ بن خطاب لی قسمت میں لکھ دی تھی ۔ ابوجہل ملعون کے حصہ میں کیوں آتی ؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ چند ہی دنوں کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کا دامن دولتِ ایمان سے بھر گیا۔آپؓ کے قبولِ اسلام پر آنحضرت ﷺ نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ تمام پہاڑیاں گونج اُٹھیں (اسدالغابہ وابن عساکر وکامل ابن اثیر )۔آپؓ کے قبول اسلام کی مختلف روایات ہیں جن میں ایک روایت جو مسندِ ابن حنبل میں ہے جو کہ خود حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک شب آنحضرتﷺ مسجد حرام میں بحالتِ نماز سورت الحاقہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن مجید کے نظم و اسلوب سے حیرت میں تھا۔دل میں کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں ،خدا کی قسم یہ شاعر ہے۔ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ آپﷺ نے سورت الحاقہ کی (40-41 نمبر آیت )پڑھی،ترجمہ۔!بیشک یہ(قرآن)رسول کریمﷺ کی زبان سے نکلا ہے اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں، تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو ۔
میں نے کہا یہ تو (نعوذاللہ) کاہن ہے میرے دل کی بات جان گیا ہے اس کے بعد آپﷺ نے اگلی دو آیتیں (42-43 نمبر ) پڑھیں ترجمہ ! اور نہ ہی کسی جادوگر کا قول ہے، تم بہت ہی کم غور کرتے ہو۔ وہ پروردگار عالم کا نازل کیا ہوا ہے۔ اسی طرح آپﷺ نے یہ سورت آخر تک تلاوت فرمائی اور اس کو سُن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ۔(مسند ابنِ حنبل) (سیرالصحابہ رضی اللہ عنھم جلد اوّل )
حضرت صہیب بن سنانؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو اسلام ظاہر ہوگیا ،انہوں نے علانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینا شروع کی ۔ہم نے بیت اللہ کا طواف کیااور بیت اللہ میں نماز

0 Comments