بڑے بھائی کی محبت و شفقت


زندگی میں بہت سی اہم چیزوں کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی نہ ان کے فوائد و نقصانات پر کبھی توجہ دی جاتی ہے۔ رشتہ داریاں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں اگرخونی رشتوں کی بات کی جائے، تو ان کی اہمیت و افادیت سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب ہوتا ہے، جسے اپنے میسر ہوتے ہیں، کیوں کہ خونی اور سگے رشتے قدرت کا انتہائی خوب صورت اور لازوال عطیہ ہوتے ہیں، جن کی قدر ہم پر لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی رشتوں میں ایک رشتہ ”بڑا بھائی“ کا ہوتا ہے۔ زندگی میں رشتے ناتے بہت اَن مول اور قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت بھی کسی بیش قیمت سرمائے کی مانند کی جاتی ہے، جس طرح ہم قیمتی چیزوں کا خیال رکھتے ہیں دنیا میں ماں باپ کے بعد جو سب سے قریبی گہرا اپنائیت و خلوص سے لبریز منفرد بے مثال خونی رشتہ ہے، وہ ہے بڑے بھائی کا رشتہ ہی ہے۔ بڑے بھائی کا درجہ والد جیسا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ شفقت و محبت کے حوالے سے مثل والد ہوتا ہے، جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک والدین کی طرح بہت پیار و محبت سے پروان چڑھاتا ہے، جو ان کی نیند، ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا ہے۔ ان کی چھوٹی سے چھوٹی تکالیف پر تڑپ اٹھتا ہے۔ ان کے بیمار ہونے کی صورت میں ماں کیطرح خود بھی راتوں کو جاگتا ہے۔ ان کا خیال رکھتا ہے۔ ان پر جان نچھاور کرتا ہے اور ان کے اچھے مستقبل اور اچھی زندگی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتی ہے۔
بھائی کی محبت
بھائی چارے پر مشتمل معاشرے کی بنیاد باہمی محبت ہے۔بھائی اور بہن کا رشتہ اٹوٹ رہتاہے۔ بھائی کو کچھ ہو جائے تو بہن رونے لگتی ہے جبکہ بہن پر کوئی آفت آجائے تو بھائی بے قرار ہوجاتا ہے۔ بچپن میں بھائی اور بہن آپس میں لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد دونوں گھل مل بھی جاتے ہیں۔ بچپن میں بھائی بہن کی لڑائیوں سے گھر کی رونق برقرار رہتی ہے ان بچپن کی لڑائیوں کو پیار ومحبت کی علامت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
قرآن میں آتا ہے کہ::"اور اللہ کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اسکی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔" (آل عمران۳: ۱۰۳) اسی طرح ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ " قسم ہے اس جان کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے“(متفق علیہ( محبت کرنے کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں عمومی پسندیدگی،قبولیت اور تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اس عمل کی ابتدا والدین سے ہوتی ہے، پھر اس میں بیوی بچے ، بھائی بہن، رشتے دار، پڑوسی، دوست احباب اور دیگر متعلقین شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراو¿ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات ۱۰:۴۹) اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور متفرق نہ ہوجاو¿(آل عمران۳: ۱۰۳) حدیث میں ہے کہ بڑا بھائی باپ کی طرح ہے (شعب الایمان، فصل بعد فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما، حدیث نمبر۷۶۹۴ عن سعید بن العاص?) اس سے یہ معلوم ہوا کہ چھوٹا بھائی اولاد کی طرح ہے؛ لہٰذا ان میں باہمی حقوق ویسے ہی ہوں گے جیسے والدین اور اولاد کے درمیان ہوتے ہیں؛ اسی پر بڑی بہن اور چھوٹی بہن کو قیاس کرلینا چاہیے۔ اپنے سگے اور خونی رشتوں سے دوری کی ایک وجہ بدگمانیاں اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی تیسرا فریق بہن بھائیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر دیتا ہے، جس کی بدولت بھائیوں اور بہنوں کے درمیان بدگمانی ہو جاتی ہے اور بہن بھائی ایک دوسرے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو اپنے ماموں اور خالہ کی شکایات وہ اپنے ماں سے کرنے لگتے ہیں، جب کہ مائیں بہ جائے اپنے بچوں کو اس عمل سے باز رکھنے کہ، الٹا اپنی بہن یا بھائی سے ناراض یا بد گمان ہونے لگتی ہے۔ اس طرح کا طرز عمل ایک دن آپ کو آپ کے پیارے رشتوں سے دور لے جاتا ہے، لہٰذا اس ضمن میں ہمیں اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔یاد رکھیے، اگر ہم نے اپنے رشتوں کی قدر نہیں کی، تو پھر ہماری قدر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور ہم تہی دست رہ جائیں گے۔

Post a Comment

0 Comments