فیضِ عالم

تحریر: محمد عتیق اسلم رانا
تعارف:آپ کا اسم گرامی 'علی' ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔ حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپکے نام ''علی'' کی بجائے آپ کے لقب ''داتا گنج بخش'' سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں 400ھ کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سید ابو الحسن علی ہجویری بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (سید شاہ شجاع) بن سید ابو الحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زید بن سید امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فی الجنہ ورحمہم اللہ اجمعین۔آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ''تاج العلمائ'' کے لقب سے مشہور تھے۔غزنی کی فضائوں سے طلوع ہونے والا آفتاب افُقِ معرفت پر اس شان سے چمکا کہ پورے بُت کدہِ ہند کو قیامت تک کے لیے نہ صِرف روشن کر گیا بلکہ اِسے عروس البلاد بنا گیا۔غزنوی خاندان کے سلاطین و فاتحین نے علاقے فتح کیے، بلند و بالا قلعوں پر اپنی ہمت و شجاعت کے پر چم گاڑے، جرأت و بہادری کی دستانیں رقم کیں۔ سامان ِ ضرب و حرب سے لوح ِ تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کیے تو دوسری جانب سینکڑوں میل کا تھکا دینے والا سفر کر کے آنے والے سیدنا علی بن عثمان ہجویری نے شہر ِ لاہور کے قرب ُ میں بیٹھ کر بڑی بے سرو سامانی کے عالم میں مخلوق ِ خدا کو اللہ کریم اور اس کے محبوب کے احکامات و تعلیمات سے آگاہ کرنا شروع کیا۔
تحریر:تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل کرلی تھی۔اس کے بعد آپؒ نے عربی اور فارسی اور دیگر علوم کے حصول کیلئے سفر کی صعوبتیں نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیںاور شام،عراق،بغداد شریف، مدائن، فارس،کوہستان،آزربائیجان،طربستان،خوزستان اور خراسان وغیرہ کے مشہور جید اور معتبر علماءفضلاءسے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ اپنی زندگی کا ایک خاص اور سبق آموز واقع بیان فرماتے ہیں کہ”ایک مرتبہ میں عراق میں تھا ۔مجھے دنیا کمانے اور خرچ کرنے میں بڑی دلیری اور جرا ت حاصل ہوگئی ،حتیٰ کہ جس کسی کو کوئی بھی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس چلا آتااور میں اسکی ضرورت پوری کردیتاکیوں کہ میں چاہتا تھا کہ کوئی بھی شخص میرے ہاں سے خالی ہاتھ واپس نہ جائے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری اپنی کمائی اس غرض سے کم پڑنے لگی اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے مجھے قرض لینا پڑتا،یوں میں چند ہی دنوں میں خاصا مقروض ہوگیااور سخت پریشانی کا شکار ہوگیا۔اُس دور کے ایک بزرگ نے میرے احوال کو دیکھتے ہوئے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو!یہ تو ہوائے نفس ہے ۔اِس قسم کے کاموں میں پڑ کر کہیں خدا سے دور نہ ہو جانا۔جو ضرورت مند ہے اس کی احتیاج تو ضرور پوری کرو۔مگر پروردگارِ عالم کی ساری مخلوق کے کفیل بننے کی کوشس نہ کرو۔کیوں کہ انسانوں کی کفالت کا فریضہ خودربِ قدوس نے انجام دینا ہے۔مجھے اُس بزرگ کی نصیحت سے اطمینانِ قلب حاصل ہوا ۔“ اختلاف روایت432ھ میں مرشد کریم حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒنے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒکو حکم فرمایا کہ علی !تم لاہور روانہ ہو جاﺅ وہاں تمہاری شدید ضرورت ہے ۔سر زمینِ ہند تمہارا انتظار کر رہی ہے اور تمہارے فیض کا سلسلہ لاہور ہی جاری ہوگا آپؒ نے ایک لمحے کے توقف کے بعد مودبانہ انداز سے عرض کیا کہ حضور !وہاںتو ہمارے پیر بھائی اور آپؒ کے مریدِ کامل حضرت میراں حسین زنجانیؒ موجود ہیں۔اُن کے ہوتے ہوئے میری وہاں کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟شیخ ابو الفضل ختلیؒ قدرے مسکرائے اور فرمایاکہ یہ تمہارے سوچنے کا کام نہیں بس تم فوراََ روانہ ہو جاﺅ اور دین اسلام کی ترویج واشاعت کا کام کرو۔ مہینوں کے دشوار گزار کٹھن سفر کے بعد لاہور پہنچے اور شہر کی جانب روانہ ہوئے ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ سامنے سے ایک بہت بڑا ہجوم آتا ہوا نظر آرہا تھاقریب آئے تو معلوم ہوا کہ یہ ایک جنازہ ہے ۔غزنی سے نو وارد مسافروں نے دریافت کیا تو پتا چلا کہ یہ حضرت شیخ میراں حسین زنجانیؒکاجنازہ ہے ۔یہ سن کر آپؒ دم بخود ہوگئے اور بے اختیار آپؒ کی زبان مبارک سے نکلا کہ ”اللہ شیخ کو جزائے خیر دے ،وہ واقعی روشن ضمیر تھے۔“جب جنازے کے شرکاءنے آپؒ کا یہ عجیب فقرہ سنا تو استفسار کیا ۔آپؒ نے انہیں پورا واقعہ سنا دیا۔جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپؒ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ کے پیر بھائی ہیں تو انہوں نے جنازہ پڑھانے کا اصرار کیا اوریوں آپؒ نے پہلے جنازہ پڑھایا اور پھر تدفین کے عمل سے فارغ ہوکرشہر کی جانب روانہ ہوئے۔ اور پھر لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔یہاںمسلمانوں کو استحکام حاصل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا،ہر طرف ہندومذہب کے پیرو کار اور پیشواﺅں کا دور دورہ تھا۔مگر آپؒ کی،شریعتِ مطہرہ کی پابند،بے داغ اور دلکش سیرت،اور شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت ....لوگوں کو کفرو شرک کی دلدل سے نکال کر ”صراطِ مستقیم“ کی طرف گامزن کرنے کی باعث بنی۔فقط رضائے الہٰی کی خاطر آپؒ نے خلوصِ دل سے دین کی ترویج واشاعت کا بیڑہ اُٹھایا،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ کے ارشاداتِ عالیہ اور مواعظِ حسنہ کی اثر انگیزی سے لوگوں نے اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہوئے جوق درجوق دائرہءاسلام داخل ہونے اورآپؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے کا اعزاز حاصل کیاآپؒ کی نگاہِ فیض کا اظہارخواجگانِ چشت کی آنکھوں کی ٹھنڈک غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے بھی فرمایا ۔جب ایک بار خواجہ غریب نوازؒ لاہور تشریف لائے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور ایک حجرہ میں چالیس دن کا چلہ کاٹا اور عبادت وریاضت میں مصروف رہے،اِس دوران حضور داتا صاحبؒ نے جو فیوض برکات کی بارش آپؒ پرکی ،اس کا اندازہ خواجہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ چلہ سے فارغ ہو کر رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ خواجہ غریب نوازؒ کی زبان مبارک پر داتا علی ہجویریؒ کیلئے بطورِ خاص یہ شعر جاری ہواکہ گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا نا قصاں را پیرِکامل کاملاںرارہنما اس مردِ خدا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ شعر اِس قدر زبان زدخاص وعام ہوا کہ کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔اور لوگ آپؒ کے آستانہ سے فیض پانے لگے۔ حضرت داتا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے لاہو ر تشریف لاتے ہی اپنی قیام گاہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجدتعمیر کرائی ،اس مسجدکی محراب دیگر مساجدکی بہ نسبت جنوب کی طرف کچھ زیادہ مائل تھی ،لہٰذا مرکزالاولیا لاہور میں رہنےوالے اس وقت کے علماء کو اس مسجدکی سمت کے معاملے میں تشویش لاحق ہوئی۔چنانچہ ایک روز داتا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے تمام علماء کو اس مسجد میں جمع کیا اور خود امامت کے فرائض انجام دیئے،نماز کی ادائیگی کے بعد حاضرین سے فرمایا:’’ دیکھئے کہ کعبہ شریف کس سمت میں ہے؟‘‘یہ کہنا تھا کہ مسجد و کعبہ شریف کے درمیان جتنے حجابات تھے سب کے سب اُٹھ گئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کعبہ شریف محرابِ مسجدکے عین سامنے نظر آرہا ہے۔(مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۵۶، وغیرہ) اللہ کے کرم سے داتا گنج بخش ؒکے قدم لاہور کی دھرتی پر لگے ، آپؒ نے ایک بوڑھی عورت سے دودھ خریدنا چاہا تو وہ ڈرگئی کیونکہ وہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے ۔ اس بوڑھی عورت نے انکار کیا اگر میں دودھ آپ کو بیچ دوں گی تو جادوگر مجھے مار دے گا، میری بھینسوں سے خون آئے گا۔آپؒ نے اسے تسلی دے کر سمجھایا انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ وہ سمجھ گئی دودھ بیچ کر اپنے گھر پہنچی اب جو اس نے اپنے مویشوں کا دودھ دھویاتو اتنا نکلا کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔ جب دوسرے گوالوں کو پتہ چلا کہ اس مسلمان میں بڑی کرامات ہیں تو وہ بھی آپؒ کے پاس آنے لگے۔آپؒ ان کو نیکی کی دعوت دیتے یہاں تک کہ دودھ میں برکت کیلئے آنیوالا ایمان کی برکت لیکر جاتا ۔ آپؒ کی نیکی کی دعوت سے پورے لاہور میں ہلچل مچ گئی، جادوگر رائے کو پتہ چلا کہ جو کہ گورنر کا نائب تھا ہنستا اور طعنہ کشی کرتا ہواآپ ؒکے پاس حاضر ہوا،بولا کہ میرے ساتھ مقابلہ کرو۔آپؒ نے اس کوسمجھانے کی کوشش کی لیکن نہ مانا آپؒ ٹالتے رہے وہ سمجھا کہ آپؒ ڈر گئے اور آپؒ میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے اس لئے جان چھڑا رہے ہیں۔اس نے جادو دکھانا شروع کردئیے اور ہوا میں اُڑنا شروع کردیا تاکہ لوگ ڈر جائیں ۔ آپؒ نے اپنی پاپوش (جوتا ) کو حکم دیا اس کو مزہ چکھا تو جوتے نے ہوا میںپرواز کی اور جادوگر کے سرپر پڑنے لگااور اس کو ماڑتے ہوئے آپؒ کے قدموں میں ڈال دیا ۔ قدموں میں گرتے ہی اس کو حق جلوے نظر آنے لگے، آپ ؒسے معافی مانگی ۔ آیا تھا لڑنے کیلئے ہار کر غلامی قبول کرلی مسلمان ہوگیا اور ظاہری باطنی علوم کی تربیت کے بعد اسلام کا مبلغ بن گیا۔ اس کے قبول اسلام سے ہر طرف ہلچل مچ گئی ، جادوگروں کا جادو مانند پڑگیا شرح صدور میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ایک جگہ قبر نرم ہوکر کھل گئی ۔ عزیز اقارب جمع ہوگئے دیکھا لاش نظر آرہی ہے،ایک شاخ لپٹی ہوئی ہے، دوشاخیں ناک میں داخل ہیں۔ انہوں نے قبر کھول کر لاش کو خشک زمین میں دورجاکر دفن کیا اب جیسے ہی قبر میںاتاراتو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں کہ وہ شاخ سانپ بن گئی اور لاش کے منہ کو نوچنے لگی۔لوگ پریشان ہوگئے کہ اس کو اس مصیبت سے کیسے بچایا جائے ،ا تنے میں ایک ولی اللہ آئے انہوں نے کہا کہ اگر تم اپنے مرحوم کی خیریت چاہتے ہوتو اس کو وہیں دفن کردو کیونکہ وہاں ایک ولی کی قبر ہے اس کی برکت سے یہ سانپ وہاں شاخ بن گیا پھول بن گیا اور اس کو فائدہ دے رہا تھا۔جب لاش کو دوبارہ پہلی قبر میں رکھا تو فوراً وہ سانپ شاخ اور پھول بن گیا۔ولی کے قدموں کی بہت برکت ہے ۔ بہرحال حضرت داتا گنج بخش کا مزار مرجع الخلائق ہے ،اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

Post a Comment

0 Comments