تحریر:امبرین سردار
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک
پاکستان کے سکولوں، کالجزوں ، یونیورسٹیوں کے با رے میں کہا جاتاہے کہ ان کے تعلیمی اداروں کا معیار بہتر نہیں ،ان کی یونیورسٹیوں کا شمار
دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ نہیں ہو سکتا لیکن ان سب خامیوں کے باوجود ہمارے طالبعلم کا تعلیمی معیار بہت اچھا ہے ہمارے طالبعلم دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں سکولرشپ پر علم حاصل کرنے جاتے ہیں ۔ وہ وہاں جدید علم حاصل کرتے ہیں ۔ہمارے تعلیمی اداروں میں خامیاں ہونے کے باوجود بھی ہمار ا لوگوں کا تعلیمی معیار بہت بہتر ہے ۔ہمارے پاس بین الاقوامی کی طرح اعلیٰ لیبارٹئیر نہیں ہیں ۔پاکستان میں تعلیم کا نظام ایک سوالیہ نشان ہے؟۔تعلیم کیا ہے؟،کیسی ہونی چاہئے؟،کسی پڑھے لکھے شخص نے تحریر لکھی اور دانشور کے پاس گیا تو دور اندیش دانا شخص نے تحریر پڑھی اور لکھنے والے کو کہا کہ آپ کو لکھنے سے بہتر پڑھنے کی ضرورت ہے۔آج پاکستان میں اسکول کے بچوں سے بہترہے کہ اساتذہ کی تعلیم اور تربیت کی جائے ۔تعلیم حاصل کرنا ڈگریاں حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ انسان علم حاصل کرے۔ہمارے ملک اور وہاں تعلیم میں کیا فرق ہے؟،بچوں کی بہتر نسل کے لئے کیا کرنا چاہئے؟)۔وہاں پورے ملک میں طلبہ اور طالبات کے لئے ایک ہی امتحان ہوتا ہے،ریاضی کے استاد سے پوچھا ،آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں،وہ مسکراتے ہوئے بولے میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں،کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو با آسانی حل کر سکتے ہیں۔آپ جاپان کی مثال لیں ،تیسری جماعت تک وہ بچوں کو صرف ایک مضمون سکھاتے ہیں وہ صرفاخلاقیات اور آداب ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا جس میں آداب نہیں اس میں دین نہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والوں کو حضرت علیؓ کا قول کہاں سے ملا اور مسلمانوں اور پاکستانیوں کو حضرت علیؓ کا قول معلوم کیوں نہیں؟۔یا پھر اس پر عمل کیوں نہیں ؟،جاپان میں اگر کوئی استاد اپنا تعارف کرائے تو قوم وزیراعظم سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔تعلیم کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے۔مگر آج کے تعلیم یافتہ دور میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔تعلیمی معیار ہی کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے پاکستان کا نظام تعلیم عدم توجہی کا شکار ہے اس نظام کی سب سے بڑی خامی یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا ہے۔جس کی وجہ سے ہر صوبے کی الگ الگ نصابی کتب اور الگ الگ تعلیمی معیار ہے۔پورے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کر دیا جائے تو اس سے بھی بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔اورپاکستان کی تعلیمی حالت ابتری کا شکار ہے
آندھی چلانا ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے
کیا محض اینٹوں اور سیمنٹ سے بنی ہوئی عمارتیں ہمیں اچھے ڈاکٹر ز،انجینیرز،سائنسدان،سکالرزاور سب سے بڑھ کر اچھے انسان دے سکتی ہیں۔
ہمیں سکولوں کالجوں کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں کرنا بلکہ تعلیم کے معیار کو بھی بہتر بنانا ہے تبھی ہم آگے بڑھ کر ترقی کر سکتے ہیں۔آٹھ جماعتیں نہیں ہے نا اُمیداقبال اپنی کشت ِویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مجھے امید ہے کہ اگر ہمارا نظامِ تعلیم درست ہوجائے توہمارے ملک کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں ۔کیونکہ ہماری نوجوان نسل ذہین اور زرخیز مٹی کی مانند ہے۔پاس کر کے ایک فرد خط تو لکھ پڑھ سکتا ہے مگر نئے دور کے تقاضوں کو کبھی پورا نہیں کر سکتا۔


0 Comments