تحریر: محمد عتیق اسلم رانا
جس طرح بچی کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کے ساتھ جاتے ہوئےدیکھا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملزم بچی کا کوئی قریبی رشتہ دار، جاننے والا یا محلے دار تھا
ہم لفظِ مزمت کی کرتے ہیں مزمت اب! اور ظلمِ مسلسل کو ہونے نہیں دیں گے اب !
آج ہمارے معاشرے کے لوگوں کو کیا ہوگیاہے چادر کے اندر ایک عورت کی ہی نجات نہیں ہے بلکہ چادر کے اندر ایک مِلت کی نجات ہوتی ہے۔8سالہ زینب کا اغوا اور قتل موجودہ نظام اور حکمرانوں کا گھناؤنا چہرہ اس میں نظر آتا ہے ۔ آج وہ نام نہاد جج کہاں ہے جو منادی کرنے والے کا بلند جملہ "زینب عدالت میں حاضر ہو" سن کر روتا ہوا عدالت سے اٹھ گیا تھا؟ قصور کی زینب کے ساتھ ہونے والے واقعے جیسے سانحوں کے روح فرسا تسلسل کے باوصف ہمیں ایسا کیوں محسوس ہوتا رہتا ہے کہ ہم دنیا میں افضل ہیں اور جنت ہمارے لیے ہی بنائی گئی ہے۔کیا یہ طے ہے کہ ہمیں اپنی نرگسیت اور اپنے سفاک رویوں پر کبھی غور نہیں کرنا ؟ ۔معصوم بچی زینب کے ساتھ زیادتی و قتل سے پہلے قصور میں ایسے 11 واقعات ہوئے، مگر ایک ملزم بھی نہیں پکڑا جا سکا۔ مگرآجانصاف کی فراہمی کےلیے لوگ جمع ہوئے تو پولیس نے سیدھی فائرنگ کی ہے اور دو مظاہرین قتل کر دیے ہیں اور زخمی بھی ہیں کیونکہ اس حکومت کو اس غریب عوام سے محبت ہی بہت ہے۔ پاکستان جیسے" اسلامی" ملک میں 7 سالہ پچی کا ریپ اور قتل ہونا نہایت تکلیف دہ اور قابل تشویش ہے۔ کیا ہمارے اندر مذہب ، اخلاقیات اور انسانیت کا بلکل جنازہ نکل گیا ہے؟ کیا اب بھی ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ ہمارے معاشرے کی شدید اصلاح کی ضرورت ہے؟آخر کب تک یہ زیادتیاں ہوتی رہیں گی اور انسان کے روپ میں درندے ، معصوم بچوں کو چیڑتے پھاڑتے رہیں گے؟ظلم کی انتہا ہے! تمام اعلی سطح فوجی،عدالتی،اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے عالمی سطح پر پاکستان کی ہونے والی جگ ہنسائی کو روکنے کیلئے زینب کے درندہ صفت قاتلوں کو ڈھونڈ کر نشان عبرت بنانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ہم اپنی آنے والی نسلوں کومحفوظ زندگی مہیا کرنے میں ناکام ہوگئے۔ یا اللہ مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرما! پاکستان پر رحم فرما!
0 Comments