محمد عتیق اسلم رانا
یہ تیسری کال تھی ، اب اسے نظر انداز کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ بشری نے موبائل فون اٹھایا تو اس طرف سے کسی اجنبی مرد کی آواز تھی ۔
اجنبی : کیا آپ بشری نگار بات کررہی ہیں ؟
بشری : جی ۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ بشری ہوں لیکن ۔۔۔۔۔ آپ ؟؟؟
اجنبی : آج کے اخبار میں آپ کی تحریر پڑھی ، بہت ہی شاندار تحریر تھی ، کیا جادو ہے آپ کے قلم میں ۔ میں تو اب تک آپ کے جملوں کے سحر میں کھویا ہوا ہوں ۔
بشری : جی ، شکریہ
اجنبی : کیسے لکھ لیتی ہیں آپ اتنا اچھا ؟
بشری : جی !
اجنبی : بہت کم لوگوں کی تحریروں میں اتنی پختگی ہوتی ہے جتنی آپ کی تحریروں میں ہے ۔ میں تو آپ کا فین ہوگیا
بشری : جی ، شکریہ
اتنا کہتے کہتے بشری نے موبائل فون رکھ دیا اور اس کے بعد نہ جانے کیا کیا خیالات اس کا تعاقب کرتے رہے ۔ اتنی تعریف اور اتنی عمدگی سے اس سے پہلے تو کبھی کسی نے نہیں کی تھی ۔
اجنبی کوئی اور نہیں معروف شاعر اور ادیب عریف تھا ۔ مختلف رسالوں میں اس کی غزلیں چھپا کرتی تھیں ، ہر ہفتے کسی نہ کسی اخبار میں کوئی نہ کوئی کالم چھپتا ہی تھا ، آواز میں غضب کا جادو تھا ۔ لفظوں کو یوں آہستگی سے ادا کرتا کہ سخت الفاظ میں بھی ملائمت بھر جاتی ۔ پہلے دن عریف نے اتنے ہی پر بس کیا ۔ اس نے خواتین کی نفسیات پر بہت کچھ پڑھ رکھا تھا ، اسے معلوم تھا کہ عورتوں کی دکھتی رگ کہاں ہے اور کس تار کو چھیڑنا ہے ۔ اس حادثے پر کئی دن بیت گئے ، عریف نے جان بوجھ کر بیتنے دیا ۔ اس بیچ بشری کی اور ایک تحریر چھپی لیکن اس نے اسے کال نہيں کیا جیسے اس نے اسے کسی مناسب وقت کے لیے ٹال دیا ہو ۔ تحریر چھپنے کے تیسرے دن مغرب کے بس تھوڑی دیر پہلے سورج کی کرنیں زرد ہوتے ہوتے ڈوبنے لگیں تھیں ۔ موسم بہت ہی سہانا تھا ، بشری کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ نمبر جانا پہچانا سا لگا ، اس بار اس نے پہلی ہی مرتبہ میں فون ریسیو کرلیا اور جیسے ہی اس نے ہیلو کہا ، ادھر سے عریف کی آواز کانوں سے ٹکرائی : محترمہ مجھے تو لگا تھا کہ اس بار بھی انتظار کرنا پڑے گا لیکن زہے نصیب آپ نے پہلی ہی مرتبہ میں ریسیو کرلیا ۔ اور ہاں معذرت بھی قبول کیجیے
بشری : کس چیز کی معذرت ؟
عریف : معذرت اس بات کی کہ آپ کی اتنی اچھی تحریر چھپی ، مجھے اتنی اچھی لگی کہ پانچ چھ مرتبہ تو کم سے کم ضرور پڑھا اور آپ کو مبارکباد بھی نہ دے سکا ۔
بشری : شکریہ ! ویسے آپ نے اپنا تعارف نہیں کرایا
عریف : بس اتنا سمجھیے کہ آپ کا ایک فین ہوں ، ادب سے تھوڑی بہت دلچسپی ہے ۔
اس قسم کی اور بھی باتیں ہوئیں ، اس بیچ بشری کی بڑی بہن کا گزر اس کے کمرے کےپاس سے ہوا اور اس نے جھٹ فون کاٹ دیا کہ کہیں آپا کو یہ نہ لگے کہ بشری کس سے بات کررہی تھی ۔ بشری ایک خالص مذہبی خانوادے سے تعلق رکھتی تھی ، شہر کے اچھے اسکول میں تعلیم ہوئی تھی لیکن اس گھرانے کی لڑکیاں بہت تہذیب سے اسکول جاتی آتی تھیں ، کبھی کسی نے ان کو بے پردہ نہیں دیکھا ہوگا ۔ بشری کے اندر تخلیقی صلاحیت تھی ، وہ بچپن سے ہی کہانیاں لکھتی تھی ، رفتہ رفتہ افسانہ کے فن پر اس کی اچھی گرفت ہوگئی تھی ، مختلف ادبی رسالوں اور ميگزینوں میں اس کے افسانے چھپنے لگے تھے لیکن کبھی کسی نے اس کی اس طرح سے تعریف نہیں کی تھی ۔ اس کے اندر بھی جیسے تجسس نے جنم لے لیا ہو ، خلوت میں اکثر اسے عریف کے جملے یاد آنے لگتے اور وہ کھو سی جاتی " کیسے لکھ لیتی ہیں آپ اتنا اچھا " ۔ وہ اپنے افسانوں کو کئی کئی بار پڑھتی اور جیسے ایک نیا جہان معنی نکالنے کی کوشش کرتی ۔
یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا ، اس کی تحریریں چھپتیں اور عریف کے تعریفی کال آتے ، پھر ایک دن جب بشری کا اصرار بڑھا اور عریف نے اسے اپنے بارے میں بتایا تو بشری کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ وہ خوشی کے مارے بلیوں اچھلنے لگی ۔
بشری : اچھا ! تو آپ عریف صاحب ہیں ! کمال کرتے ہیں آپ نے بتایا کیوں نہيں ؟
عریف : معمولی آدمی کیا بتاتا
بشری : ویسے آپ اتنے بھی معمولی نہیں ہیں ، آپ کی شاعری اور کالم کے ہمارے گھر کے سارے افراد دیوانے ہیں ۔ بڑے بھیا تو بآواز بلند آپ کا کالم ہمیں پڑھ کر کبھی کبھی سناتے ہیں ۔
عریف : یہ ان کی بڑائی ہے ورنہ ایسا کیا ہوتا ہے میرے کالم میں ، میں تو آپ کی تحریروں پر رشک کرتا ہوں ۔ سچ پوچھیے تو مجھے آپ سے کبھی کبھی جلن ہونے لگتی ہے ۔ اوف اوہ ! دیکھیے مجھے ابھی آپ سے بات روکنی پڑے گی ۔ میں پھر آپ سے رابطہ کرتا ہوں ۔
٭٭٭
پندرہ دن بعد عریف کی کال پھر آئی۔
بشری : کیا عریف صاحب ! آپ تو بڑے وہ نکلے ، کہا بات کرتا ہوں اور پندرہ دن تک کوئی اتا پتہ نہیں ؟
عریف : بہت معذرت لیکن میں ایسی الجھنوں میں گھر گیا تھا کہ آپ کو کال نہ کرسکا ۔ ویسے میں آج آپ کے شہر میں ہوں ۔
بشری : اچھا ! کہاں ہیں آپ ؟
عریف : میں سنبل مارکیٹ میں انجم ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں ، اگر زحمت نہ ہو تو ملاقات کریں ۔
بشری : وہ بات یہ ہے کہ میں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔
عریف : اچھا ! اگر ایسا ہے کہ آپ کو یہاں آنے میں مسئلہ ہے تو مجھے بتائيے کہاں آنا ہے میں وہاں آجاتا ہوں ۔ مجھ سے ملنے کے لیے کتنے پریشان رہتے ہیں لیکن سچ بتاؤں دنیا میں آپ پہلی ایسی تخلیقی شخصیت ہیں جن سے ملنے کو میرا دل کہتا رہتا ہے ۔
بشری : ( چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ) میں بھی آپ سے ملنا چاہتی ہوں لیکن بات یہ ہے کہ ہم اجنبی لوگوں سے نہیں ملتیں ۔ ہمارا گھرانا کافی مذہبی ہے اور ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عریف : یعنی میری قسمت میں یہ لکھا ہوا ہی نہیں ہے کہ میں جس ادیبہ سے متاثر ہوں اس سے مل سکوں ۔ ہائے رے قسمت ۔ چلیے کوئی بات نہیں ۔ ہر انسان کا مقدر اچھا ہو یہ ضروری بھی تو نہیں ۔
بشری : دیکھیے آپ برا مت مانیے ۔ میری مجبوری ۔۔۔۔۔۔۔
عریف : برا نہیں مان رہا ، بس اپنی شومئی قسمت پر ماتم کناں ہوں ۔ سچ پوچھیے تو میں اس ذہانت اور تخلیقی قوت کی جاذبیت سے مضطرب ہوں جو آپ کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ لفظ سے ہویدا ہوتی ہے ۔
بشری : میں ایک ترکیب نکالتی ہوں ۔ آپ یونیورسٹی کی لائبریری آ جائیں وہاں لائبریری کے پيچھے کینٹین میں ملاقات ہوسکتی ہے ۔ کل مجھے یونیورسٹی جانا بھی ہے ۔
عریف : میں کن الفاظ میں آپ کا شکریہ ادا کروں ، بے صبری سے انتظار رہے گا ۔
٭٭٭
دوسرے دن لائبریری کی کینٹین میں بشری اپنی دوست حمیرا کے ساتھ پہنچی تو عریف پہلے سے وہاں حاضر تھا ۔ بشری کے لیے اسے پہچاننا اس لیے بہت آسان تھا کہ اس کی تصویریں میگزینوں میں چھپتی ہی رہتی تھیں ۔ ملاقات ہوئی ، کچھ رسمی سی باتیں ہوئیں اور پھر ادب ، شاعری پر تبادلہ خیال ہونے لگا ۔ عریف نے ایک پر ایک نئے جملوں اور تعریفی کلمات سے بشری کو خوش کیا اور ایک گھنٹے بعد مجلس برخواست ہوگئی ۔
اس کے بعد تو جیسے عریف اور بشری کی ٹیلی فونک گفتگو معمول ہی بن گئی ۔ بشری کا دل شروع میں تو گھبرایا لیکن جب اس کی بہنوں کو پتہ چلا کہ اس کی تحریروں پر تعریفی کالز آرہی ہیں تو کسی نے اسے کسی اور معنی میں نہيں لیا لیکن جیسے جیسے دن گزرتا گيا ، بشری کے دل میں عریف کی جگہ بنتی گئی اور صورت حال یہ ہوگئی کہ اگر کسی دن اس کی کال نہ آتی تو بشری بے چین ہوجاتی ۔ اب وہ خود بھی کال کرتی بلکہ اب تو اکثر اسے ہی کال کرنی پڑتی ۔ اسے سمجھ میں نہيں آتا کہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ عریف اسے جس اسٹیج پر لے جانا چاہتا تھا بشری اس اسٹیج پر آچکی تھی ۔ کبھی کبھی دونوں رات رات بھر باتیں کرتے ۔ ادب سے ہوتے ہوتے وہ سب باتیں ہونے لگیں جو صرف بیوی اور شوہر کے درمیان ہو سکتی ہیں ۔ بشری کو پتہ ہی نہيں لگا کہ وہ کب اور کس طرح عریف کے پیچھے درخت سے گرے خشک پتے کی مانند چلنے لگی ۔ ان باتوں سے وہ اس یقین تک پہنچ چکی تھی کہ عریف اس سے بے حد پیار کرتا ہے اور وہ ضرور اس سے شادی کرنا چاہے گا ، اسے یہ بھی لگتا تھا کہ خود اس کے گھر والوں کو بھی جب اس بات کا پتہ چلے گا تو عریف کی شہرت اور مقبولیت کی وجہ سے وہ بھی رضامند ہوجائیں گے ۔
٭٭٭
گرمیوں کی چھٹی میں بشری اپنی پھوپھی کے یہاں گئی ۔ اس کی ملاقات اپنی پھوپھی زاد بہن رحمت کنول سے ہوئی تو اس نے سب سے پہلے رحمت کنول کے نئے افسانے کے بارے میں گفتگو کی اور اسے سراہا لیکن اس کے ایک کردار کے ڈھیلے پن کی شکایت کی تو رحمت کنول نے کہا : بشری ! تم افسانہ لکھتی ہو لیکن لگتا ہے افسانوں کی اتنی سمجھ نہیں ۔ یہ دیکھو جس کردار کو تم ڈھیلا بتا رہی ہو اس کے بارے میں معروف و مقبول ادیب و شاعر جناب عریف کا کیا کہنا ہے ۔ عریف کا نام سنتے ہی بشری کے کان کھڑے ہوگئے ۔ رحمت کنول کے واٹس اپ میسیجز جب اس نے پڑھنا شروع کیے تو اس کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ۔ وہی الفاظ و انداز ، وہی جملے ، وہی ترکبیبیں جو اس کے لیے کہے گئے تھے ، وہی تعریف و توصیف ، وہی والہانہ پن ۔ اس نے رحمت کنول پر اپنی دلی کیفیات ظاہر نہ ہونے دینے کے لیے بہت محنت کی اور اس سے کہا : جب اتنے بڑے ادیب ایسا کہہ رہے ہیں تو ضرور ہی صحیح کہہ رہے ہوں گے ۔
شام کو چائے کی چسکی لیتے ہوئے رحمت کنول نے بشری کا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گئ اور کہا : میں تم سے ایک بات بتانا بھی چاہتی تھی ۔ نہیں معلوم تم کیا مطلب نکالوگی لیکن یار! مجھے پیار ہوگيا ہے ۔ غضب کا بندہ ہے وہ ! ہائے کیا معصومیت ہے اس کے اندر ! اتنا بڑا شاعر اور ادیب ہے اور کتنی بے ریائی ہے ۔ مجھے کہتا ہے اسے مجھ پر رشک ہے ۔ میری تحریروں میں جادو ہے ۔
رحمت کنول اپنے انداز میں بولے جارہی تھی ، ادھر بشری کے دل کی دنیا ہچکولے کھارہی تھی ۔
بشری : تو کیا تمہاری اور اس کی ملاقات ہوئی ہے ؟
رحمت کنول : بس ایک ملاقات ہوئی ہے لیکن ظالم نے جادو کردیا ہے ، کیا باتیں کرتا ہے ، شکل و صورت سے بھی تو کم قاتل نہیں ہے ظالم ۔ آیا تھا یہاں تو بس ایک دو گھنٹے کی ملاقات ہوئي تھی ۔ اب بس باتیں ہوتی ہیں ۔ گھنٹوں ! ان دنوں یونیورسٹی کا سارا وقت اسی ظالم کی نذر ہے ۔
ایک ہفتے میں آنے والا ہے ، تم دوچار روز رکو تو تمہاری ملاقات کراؤں ۔ بہت دلچسپ آدمی ہے وہ ۔ تم ملوگی تو تمہیں بھی اس سے پیار ہو جائے گا ۔
بشری نے ہوں ہاں میں جواب تو دے دیا لیکن اس کا ذہن کہیں اور ہی تھا ۔ وہاں سے اٹھ کر وہ سیدھے اپنے کمرے میں آئی ، اپنا موبائل فون اٹھایا ، واٹس اپ کے پیغامات کھولے اور رحمت کنول کے سامنے رکھ دیے ۔ رحمت کنول نے پیغامات پڑھے تو اس کا غصہ اس کی آنکھوں میں اتر آیا ، ہونٹ کانپنے لگے ، وہ بولنا چاہ رہی تھی لیکن الفاظ اندر ہی اندر اٹک کر رہ جا رہے تھے ۔ کچھ دیر دونوں کے بیچ سناٹا رہا ۔ آنکھوں میں آنسو رہے اور وہ ایک دوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھتی رہیں ۔ پھر رحمت کنول نے کچھ ہمت کی اور کہنا شروع کیا ۔ یار ! یہ تو حرامی ہے کمینہ ! اللہ کا کرنا اچھا ہی ہوا کہ تم یہاں آ گئی اور ہم دونوں بچ گئے ۔ شکاری ہے حرامزادہ ! نہ جانے ہم جیسی کتنی معصوموں کے جذبات سے کھیلتا ہوگا ۔اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگیں ۔

0 Comments