ترکی کے نائب وزیر اعظم کی ٹویٹس تصاویر معاملہ برما میں مزید خراب ہو سکتا ہےـ( اقوام متحدہ کی نمائندہ ٹیم)

تحریر : محمد عتیق اسلم 
29 اگست کو ترکی کے نائب وزیر اعظم محمت سمسیک نے چار تصاویر ٹویٹ کیں جن میں انھوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مصائب کا ادراک کریں۔
ان کی ٹویٹ کو 1600 سے زیادہ دفعہ شیئر کیا گیا اور 1200 لوگوں نے اسے 'لائک' کیا لیکن ساتھ ساتھ انھیں ان تصاویر کی صداقت کے بارے میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
مسلسل تنقید کی وجہ سے تین دن بعد انھوں نے ٹویٹ حذف کر دی۔
ان کی ٹویٹ میں شامل تصاویر میں سے ایک تصویر کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مئی 2008 میں آنے والے سمندری طوفان نرگس کی تصاویر ہیں جبکہ ایک اور تصویر بی بی سی کی تحقیق کے مطابق جون 2003 میں انڈونیشیا میں لی گئی تھی۔
محمت سمسیک شیئر کی گئی تیسری تصویر 1994 میں افریقی ملک روانڈا میں لی گئی تھی۔
ان حقائق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر سوشل میڈیا پر سخت بحث جاری ہے اور دونوں فریقین اپنی برتری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جن میں سے اکثر تصاویر قطعی غلط ہیں۔
مجھے بھیجے جانے والی ایک تصویر جس میں اسلحے سے لیس روہنگیا مسلمانوں کو دکھایا گیا تھا وہ تصویر درحقیقت 1971 میں بنگلہ دیش کے آزادی کی جنگ لڑنے والے رضاکاروں کی تھی۔


برما

اس سال جب اقوام متحدہ کی نمائندہ ٹیم نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے تحقیق کی تو اپنی رپورٹ میں انھوں نے اپنی لی ہوئی تصاویر کے علاوہ کسی اور ذرائع کی تصویریں استعمال نہیں کی کیونکہ ان تصاویر کی تصدیق کرنا نہایت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 'دونوں فریقین کی جانب سے سفاکی کی مظاہرہ کیا گیا' ہے لیکن انھوں نے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی نوعیت کہیں زیادہ سنگین ہے۔
لیکن رخائن میں غیر جانبدار ذرائع کو آزادانہ رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حالات کی درست تصویر لینا بہت مشکل ہے اور سوشل میڈیا پر جاری پروپاگینڈا سے اس مسئلے کا حل ملنے کے بجائے معاملہ مزید خراب ہو سکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments